اپنے کیے پر نادم نہیں
میں ہر شام جب گھر میں داخل ہوتا ہوں تو بچوں کے لڑائی جھگڑے مجھے مزید تھکا ڈالتے ہیں۔ وہ ایک دوسرے کو بہت بے رحمی سے مارتے پیٹتے ہیں۔ گھر میں بلیاں ہیں‘ ان کے بچوں پر تشدد کرڈالتے ہیں۔ اپنے کیے پر نادم نہیں ہوتے‘ بے ادبی کرتے ہیں۔سکول میں بھی بدنام ہورہے ہیں‘ اگر کسی کو زخم ہوجائے اور خون بہہ نکلے تو پریشان ہونے کے بجائے خوشی سے ذکر کرتے ہیں۔ دونوں بچوں نے زندگی مشکل بنادی ہے۔ ایک کی عمر نوسال اور دوسرے کی بارہ سال ہے۔ (محمد کلیم‘ اسلام آباد)
مشورہ: بچوں میں یہ باتیں ایک دم پیدا نہیں ہوتیں۔ ان کے بہت سے اسباب ہیں۔ مثلاً ان کی طرف سے مسلسل لاپرواہی‘ گردوبیش کا ماحول‘ خاندانی مسائل‘ حادثات‘ محرومیاں‘ بڑوں کا غصہ وغیرہ… آپ نے یہ نہیں بتایا کہ ان کی والدہ کی کیا مصروفیات ہیں اور کیا انہیں بھی بچوں سے اسی طرح کی شکایات ہیں۔ دراصل تین سے چھ سال کے درمیان بچوں کی پرورش اور دیکھ بھال بہت اہم ہوتی ہے۔ وہ کس ماحول میں رہتے ہیں۔ کیسے دوستوں کے ساتھ وقت گزارتے ہیں‘ کہاں کھیلتے ہیں۔ یہ سب معلوم ہونا ضروری ہے۔
ذہنی کمزور نہیں
میں ذہنی اور جسمانی طور پر بہت کمزور ہوں۔ والد کا انتقال ہوچکا ہے‘ بھائی ترکی میں ہیں‘ ایک بہن کی شادی ہوچکی ہے وہ دبئی میں رہتی ہیں جب چھٹیوں میں گھر آتی ہیں تو شدید غصہ کرتی ہیں عجیب ہیجانی کیفیت ہوتی ہے بات کریںتو بہت ہی غصے سے جواب دیتی ہیں۔ مجھے بچپن میں ماں کی اتنی توجہ نہیں ملی جتنی کے اور بہن بھائیوں کو ملی ہے۔ ہر ایک سے بنا کر رکھنے کی کوشش کرتی ہوں۔ سوچوں میں گم رہتی ہوں‘ بے عمل ہوکر رہ گئی ہوں۔ ماحول کی وجہ سے کچھ کر نہیں پارہی یا مجھ میںکچھ کرنے کی صلاحیت ہی نہیں۔ گھریلو نوعیت کے کام بھی نہیں ہوپارہے۔ اپنے آپ کو منوانے اور حد سے زیادہ اہمیت حاصل کرنے کا شوق ہے۔ جس کے نتیجے میں خود کو مذاق کا نشانہ بنالیتی ہوں۔ جب میں بولتی ہوں تو کہتے ہیں کہ بہت بولتی ہو‘ چپ چپ رہتی ہوں تو نظرانداز کیا جاتا ہے۔میری رنگت بھی سانولی ہے سب گھرمیں گورے خوبصورت اور ایکٹو ہیں۔ یہ کیا کم ذہنی اذیت ہے۔ (لبنیٰ‘ بہاولپور)
مشورہ:آپ جسمانی طور پر توکچھ کمزور ہوسکتی ہیں مگر ذہنی کمزور نہیں لگتیں‘ یہ الگ بات ہے کہ حساس ہوں گی یا اپنے مسائل کو بہت بڑھاکر محسوس کررہی ہیں وغیرہ… جہاں تک کچھ نہ کرسکنے کی بات ہے تو اس میں نہ تو ماحول رکاوٹ ہے اور نہ ہی آپ میں صلاحیت کی کمی ہے۔ آپ عملی طور پر کوئی قدم نہیں اٹھاپا رہیں۔ اس کی وجہ اعتماد کی کمی ہوسکتی ہے۔ خود کو منوانے اور اہمیت حاصل کرنے کا کسے شوق نہیں ہوتا لیکن اس شوق کے سبب غیرضروری گفتگو اور توجہ حاصل کرنے کے مصنوعی طریقوں سے انسان مذاق کا نشانہ بن جاتا ہے۔ اس سے بہتر ہے کہ خود کو اوسط درجے کا محسوس کریں اور اپنے نظرانداز کیے جانے کا خیال نہ کریں۔ آپ کی اپنی جگہ اہمیت ہے۔ سانولی رنگت سے خوبصورتی میں کمی نہیں ہوتی۔ یہ آپ کا خیال ہے گھر والے خوبصورت ہیں تو اچھی بات ہے مگر آپ بھی کسی سے کم نہیں۔ اپنی صحت کا خیال رکھیں اور کوئی اچھی مصروفیت بھی اپنائیں۔ ذہنی اذیت نہ ہوگی بہن کے مزاج کی تلخی ظاہر کررہی ہے کہ ان کارویہ نارمل نہیں۔ اتنے عرصے بعد اپنوں میں آکر خوش ہونے کے بجائے غصہ کا اظہارکرنا تو بالکل بھی ٹھیک نہیں لگتا۔ اپنوں سے ملنے کیلئے انہیں اتنا کم وقت ملتا ہے اس میں تو وہ جتنا خوش ہولیں اتنا ہی اچھا ہے۔
ڈیپریشن اور جسمانی تکلیفیں
ہماری ایک عزیزہ کے ساتھ ناخوشگوار واقعہ پیش آگیا۔ جس کے بعد وہ ڈیپریشن کا شکار ہوگئیں۔ ان کے پیٹ میں درد اٹھا اور انہیں فوری طور پر ہسپتال لے گئے تمام ضروری معائنہ جات ہوئے اور معلوم ہوا کہ سب کچھ نارمل ہے مگر پیٹ میں درد کبھی کبھی ہوجاتا ہے۔ میں آپ سے یہ پوچھنا چاہتی ہوں کہ ڈیپریشن ایک ذہنی مسئلہ ہے پھرمریضوںکے پیٹ میں درد‘ ٹانگ میں درد‘ کمر درد وغیرہ کیوںہوتا ہے۔ وہ خاتون جن کا میں نے ذکر کیا سمجھدار اور بردبار ہیں۔ ان کے شوہر اور بچے بہت خیال رکھنے والے ہیں۔ وہ بہانے بنا کر گھر والوں کو متوجہ کرنا نہیں چاہتیں۔ (س۔شاہ۔ کوئٹہ)
مشورہ:ہمیں اکثر ایسے لوگ ملتے ہیں جو مختلف جسمانی شکایات کا ذکر تو کررہے ہوتے ہیں مگر بظاہر ان کی کوئی وجہ نہیں ہوتی۔ اکثر اوقات ڈیپریشن کی علامات سردرد‘ کمرکادرد‘ جوڑوںکا درد اور بلڈپریشر وغیرہ کی شکایات بھی ہوتی ہیں۔ جدید تحقیقات سے یہ حقیقت سامنے آئی ہے کہ ڈپیریشن کی بیماری دماغ میں کیمیائی مادوںکے عدم توازن کی وجہ سے سامنے آئی ہے اور اس مرض کا آغاز عام طور پر کسی افسوسناک حادثے سے ہوتا ہے ویسے توکسی مایوس کن صورتحال پر مایوسی فطری ہوتی ہے لیکن وقت کے ساتھ یہ کیفیت بڑھتی رہے اور مرض کی شکل اختیار کرلے تو سمجھ لینا چاہیے کہ اب یہ ذہنی بیماری ہے لیکن اس کیساتھ جسمانی علامات ظاہر ہونی حیران کن نہیں کیونکہ ذہن اور جسم کا گہرا تعلق ہے۔ ذہن بیمار ہوگا تو جسم بھی صحت مند نہ رہ سکے گا۔ ذہن پر مایوسی کا غلبہ ہوتا ہے تو اعضاء بھی جواب دے دیتے ہوئے محسوس ہوتے ہیں۔ ایسے میں تھکاوٹ اور کمزوری وغیرہ ہونی تو عام سی بات ہے۔ مختلف اعضاء میں درد کی شکایت بھی ہوسکتی ہے۔ ڈیپریشن کے علاج کیساتھ ساری تکلیفیں آرام آنے لگتی ہے اور انسان خود کو پہلے کی طرح پرسکون اور خوش و خرم محسوس کرسکتا ہے۔ا
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں